بنگلورو،28/دسمبر(ایس او نیوز) ایسے مرحلے میں جبکہ ملک بھر میں شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاجات کی لہر چل رہی ہے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مرکزی حکومت نے ملک گیر پیمانے پر ایک جانب مردم شماری کا کام این پی آر کے نام سے شروع کرنے کی تیاری کی ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مرکزی حکومت نے کرناٹک میں موجود فوج کی یونٹ کرناٹک اور گوا سب ایریا زون کے ذریعے ریاست بھر کی مساجد اور مدارس کا خفیہ سروے کرنے کی ہدایت دی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہ ہدایت 4فروری2017کو جاری کی گئی تھی اس وقت کرناٹک و گوا زون کے کمانڈنٹ نے ریاست کے داخلہ سکریٹری سے کہا تھا کہ ریاست بھر میں جتنی بھی مساجد اور مدارس ہیں ان کی مکمل تفصیل فراہم کی جائے۔ اس ضمن میں محکمہ داخلہ کو جو مکتوب روانہ کیا گیا اس میں واضح طور پر بتایا گیا کہ مرکزی حکومت کی ہدایت پر ہندوستانی فوج نے ملک گیرپیمانے پر مساجد اور مدارس کے متعلق تفصیلات یکجا کرنے کا کام شروع کیا ہے اس سلسلہ کی ایک کڑی کے طور پر کرناٹک اور گوا سب زون سے کہا گیا ہے کہ کرناٹک کی مساجد اور مدارس کے بارے میں تفصیلات یکجا کی جائیں۔ حالانکہ اس وقت کی سدارامیا حکومت نے فوج کی طر ف سے روانہ ہوئے اس پیغام کو کوئی اہمیت نہیں دی اور تب فوج کی طرف سے مساجد اور مدارس کے بارے میں جانکاری فراہم کرنے کی گزارش کو نظرانداز کردیا۔بتایا جاتا ہے کہ 15فروری 2019کو اس سلسلہ میں ریاستی حکومت سے آر ٹی آئی کے تحت اس بارے میں معلومات طلب کی گئیں تو ریاستی حکومت نے اس کو رازدارانہ قرار دیتے ہوئے معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ تاہم بعد میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے اس ضمن میں ہدایت کے بعد ریاستی پولس کے اڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولس (لاء اینڈ آرڈر) نے ریاستی خفیہ محکمہ کو اپنے طور پر یہ ہدایت جاری کی کہ ریاست بھر میں موجود مساجد اور مدارس کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل کرکے اسے ایک دستاویز کی شکل میں تیار رکھا جائے اس سلسلے میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کی جانکاری حکومت صرف اپنی معلومات کے لئے لے رہی ہے اسے کسی اور مقصد کے لئے استعمال میں نہیں لایا جائے گا تاہم چار ماہ قبل جب ریاست کا انتظامیہ تبدیل ہو گیا اور ایڈی یورپا کی قیادت والی حکومت قائم ہوئی اس کے بعد سے یہ دستاویز اب موجودہ حکومت کی تحویل میں ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے شہریت قانون لائے جانے کے بعد ملک گیر پیمانے پر جس طرح کے احتجاجات کئے جا رہے ہیں اور مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کہا جاتا ہے کہ ان احتجاجات میں بڑی تعداد میں دینی مدارس کے بچوں کی شرکت سے انتظامیہ پریشان ہے۔ اس لئے ایک بار پھر ریاستی حکومت کو محکمہ دفاع سے ایسی ہدایت جاری کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے کہ ریاست بھر میں جتنی بھی مساجد اور مدرسے ہیں ان کی پوری تفصیل رازدارانہ طور پر فوج کو مہیاکرائی جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ فوجی حکام نے ریاستی انتظامیہ کے بعض افسروں سے اس ضمن میں غیر رسمی ملاقاتیں کی ہیں اور ان ملاقاتوں کے دوران ریاستی انتظامیہ کے افسروں نے مساجد اور مدارس کے بارے میں جانکاری پر مشتمل دستایز مہیا کروانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریاست کے خفیہ محکمہ نے مساجد کے بارے میں حاصل کی گئی جانکاری میں متعلقہ مسجد کے رقبہ، ذمہ داران، مسجد میں مسلسل آنے والے مصلیان اوریہاں نماز کے لئے آنے والے ایسے افراد (جن کے بارے میں شبہ ہے)، مساجد میں ہونے والے جلسے، تقریبات اور تربیتی اجتماعات وغیرہ کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مدارس میں طلباء کی تعداد، ان کی آمدنی کے ذرائع، ان کے بینک کھاتوں کی تفصیلات، بیرون ممالک سے ملنے والے چندے کے بارے میں معلومات وغیرہ یکجا کر کے اسے دستاویزی شکل دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاست کی موجودہ حکومت نے 2017میں مرکزی حکومت کی ایما پر فوج کی طرف سے جاری اس خفیہ سروے میں تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔